ہم کو واعظ یہ خبر سب ہے کہ جنت کیا ہے
کوچہء یار سے لیکن اُسے نسبت کیا ہے
جس کی ذلت میں بھی عزت ہے ، سزا میں بھی مزا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ محبت کیا ہے
مجھ سے برگشتہ نہ ہوتے تو تعجب ہوتا
آپ کو عذرِ تغافل کی ضرورت کیا ہے
کیوں ہے در پردہ لگاوٹ جو بظاہر ہے گریز
نہ کھُلا کچھ نگہِ یار کی نیت کیا ہے
شادماں ہو کے ترے درد سے کہتا ہے یہ دل
ہے اذیت جو یہی چیز تو راحت کیا ہے
خوف ہو اُن کو تو ہو حُسن کی بدنامی کا
ہم ہیں عاشق، ہمیں پروائے ملامت کیا ہے
رندِ مے نوش کبھی ، صوفیِ صافی ہے کبھی
حسرت آخر یہ ترا رنگِ طبعیت کیا ہے
0 Comments
Please don't enter any spam link in the comment box.