مجھے شوق تھا تیرے ساتھ کا
جو نہ مل سکا چلو خیر ھے
میری زندگی بھی گزر گئی
تو بھی جا چکا چلو خیر ہے
یہ جو بے بسی ہے چار سو
اور الجھے الجھے سے طور ہیں
تجھے سب خبر ہے مگر تو
کیوں نہ سمجھ سکا چلو خیر ہے
میں نےخود نمائی کبھی نہ کی
مجھے دوستوں سےگلہ بھی کیا
وہ سمجھہ نہ پائے صدائے دل
یہ بھی چپ رہا چلو خیر ہے
یہ گھٹے گھٹے سے ہیں سلسلے
یہ رکے رکے سے تعلقات
نہ میں کہہ سکا کبھی کھل کے کچھ
نہ تو سن سکا چلو خیر ہے
شب ہجر اتنی طویل تھی
شب وصل بھی تو دراز تھی
میں نے سب کہا تھا بہت
مگر ابھی رہ گیا چلو خیر ہے
میں نے جو بھی چاہا وہ نہ ملا
یہ ہے میری زیست کا المیہ
تجھے ہر قدم پہ خوشی ملی
مجھے غم ملا چلو خیر ہے
میں کہوں تو کیسے کہوں تجھے
میرے شہر دل میں رکے رہو
یہی سوچ تھی میری سوچ میں
تو چلا گیا چلو خیر ہے
کبھی تم کو ضد تھی میں ملوں
کبھی میں بضد تھا کہ تو ملے
یونہی دھیرے دھیرے ختم ہوا
یہ بھی سلسلہ چلو خیر ہے
کئی ماہ و سال گزر گئے
تیری بے رخی تیرے ہجر میں
یہ جو آنے والا ہے نیا برس
یونہی گزرے گا چلو خیر ہے
چلو خیر ہے کہ گزر گئی
وہ طویل شب میری زیست کی
جسے ساتھ چلنا تھا کبھی میرے
وہ نہ چل سکا چلو خیر ہے
0 Comments
Please don't enter any spam link in the comment box.