مختصر بات ، بات کافی ہے
اک ترا ساتھ ، ساتھ کافی ہے
جو گزر جائے تیرے پہلو میں
ہم کو اتنی حیات کافی ہے
میں ہوں تیرا ، مرا وجود ہے تُو
کُل یہی کائنات کافی ہے
لاکھ کیجے مگر محبت میں
کب کوئی احتیاط کافی ہے
ہمیں ہم سے کیا ہے پھر ہم تم
یہ جہاں بے ثبات کافی ہے
اب نہیں کوئی جیتنے میں نشہ
تم سے پائی جو مات کافی ہے
کر لی اونچی فصیلِ دل ہم نے
ایک ہی واردات کافی ہے
0 Comments
Please don't enter any spam link in the comment box.